Orhan

Add To collaction

ایسا نہیں تھا

گریزاں تھا مگر ایسا نہیں تھا
یہ میرا ہم سفر ایسا نہیں تھا

یہاں مہماں بھی آتے تھے ہوا بھی
بہت پہلے یہ گھر ایسا نہیں تھا

یہاں کچھ لوگ تھے ان کی مہک تھی
کبھی یہ رہ گزر ایسا نہیں تھا

رہا کرتا تھا جب وہ اس مکاں میں
تو رنگ بام و در ایسا نہیں تھا

بس اک دھن تھی نبھا جانے کی اس کو
گنوانے میں ضرر ایسا نہیں تھا

مجھے تو خواب ہی لگتا ہے اب تک
وہ کیا تھا وہ اگر ایسا نہیں تھا

پڑے گی دیکھنی دیوار بھی اب
کہ یہ سودائے سر ایسا نہیں تھا

خبر لوں جا کے اس عیسیٰ نفس کی
وہ مجھ سے بے خبر ایسا نہیں تھا

نہ جانے کیا ہوا ہے کچھ دنوں سے
کہ میں اے چشم تر ایسا نہیں تھا

یوں ہی نمٹا دیا ہے جس کو تو نے
وہ قصہ مختصر ایسا نہیں تھا
ابرار احمد

   1
0 Comments